Thursday, January 12, 2017

JAHILANA RUSOOMAT O BIDDAT KE KHILAAF AALA HAZRAT KE FATAWE,,


Jahilana Rusoomat o Bidaat K Khilaf Imam Ahmed Raza K Fatawe






جاہلانہ رسومات و بدعات کے خلاف امام احمد رضا خاکے 
فتاوے



شیخ الاسلام والمسلمین‘ مجدد اعظم دین وملت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جید عالم فاضل تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بیک وقت بہت سی خصوصیات کو جمع فرما دیا تھا۔ ایک طرف آپ ایک بہترین فقیہ تھے۔ آپ کی نظر علم تفسیر و تاویل اور احادیث نبوی پر بہت گہری تھی اور آپ کی علمیت اور اصابت رائے کے اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی قائل تھے۔ آپ کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت ’’عشق رسولﷺ‘‘ ہے۔ ساری زندگی آپ نے مدح رسولﷺ میں صرف کی۔
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ ان کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میں بدعات کو فروغ حاصل ہوا اور دین میں ایسی نئی نئی باتیں پیدا ہوئیں جن سے شارع علیہ السلام کا دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔۔۔ لیکن جب ہم امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی تحریروں اور خاص طور پر ان کے فتاویٰ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بدعات کو فروغ دینے کا الزام نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ سراسر ان سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔
کھلے ذہن و دماغ کے ساتھ امام اہلسنت علیہ الرحمہ کی تحریروں اور فتاویٰ کے مطالعہ سے امام اہلسنت کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ ایک ایسے داعی اور دینی رہنماکی ہے جس نے اپنے زمانے میں شدت کے ساتھ اور باضابطہ طور پر بدعات و منکرات کے خلاف تحریک چلا رکھی تھی اور اپنے مخصوص مزاج کے مطابق ان کے خلاف بڑے ہی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔
لہذا ہم اس کتاب میں ان تمام غیر شرعی رسومات اور وہ خرافات جن کی نسبت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی طرف جاتی ہے‘ آپ ہی کی کتب سے اس کی مخالفت ثابت کریں گے تاکہ عام مسلمانوں پر یہ واضح ہوجائے کہ ان تمام خرافات اور بدعات کا امام احمد رضا علیہ الرحمہ اور ان کے سچے مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اپنی غلط گمانی کا محاسبہ کریں نیز اندازہ لگائیں کہ انہوں نے بدعتوں کا سدباب کیا یا ان کو فروغ دیا۔ آج بھی ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں نکھار آسکتا ہے۔ بدعات و منکرات کی بیخ کنی کے لئے تصنیفات امام احمد رضا علیہ الرحمہ سے ہمیں بہت کچھ مل سکتا ہے۔ آپ علیہ الرحمہ نے یہی پیغام دیا اور ہر موڑ پر اسلامی احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا سفر شوق آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی۔
بدگمانی حرام ہے
القرآن: یایھا الذین امنوا احتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم
ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں
(سورۂ حجرات آیت 12 پارہ 26)
حدیث شریف: (برے) گمان سے دور رہو کہ (برے) گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔
(صحیح بخاری‘ کتاب الادب‘ حدیث 6066‘ جلد 3ص 117)
بعض گمان گناہ ہیں
ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ سے کعبہ معظمہ کو تشریف لے جارہے تھے اور ہاتھ میں صرف ایک تاملوٹ (یعنی ڈونگاتھا۔ شفیق بلخی علیہ الرحمہ نے دیکھا (تو) دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار (یعنی بوجھ) ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ شیطانی آنا تھا کہ امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا! شفیق۔۔۔ بچو گمانوں سے (کہ) بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ نام بتانے اور وسوسہ دلی پر آگاہی سے نہایت عقیدت ہوگئی اور امام کے ساتھ ہولئے۔ راستے میں ایک ٹیلے پر پہنچ کر امام صاحب نے اس سے تھوڑا ریت لے کرتا ملوٹ (یعنی ڈونگے) میں گھول کر پیا اور شفیق بلخی سے بھی پینے کو فرمایا۔ انہیں انکار کا چارہ نہ ہوا جب پیا تو ایسے نفیس لذیذ اور خوشبودار ستو تھے کہ عمر بھر نہ دیکھے نہ سنے (عیون الحکایات‘ حکایت نمبر 131ص 150/149)
شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ محدث بریلی علیہ الرحمہ کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی۔ نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی۔ وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز محدث بریلی علیہ الرحمہ کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا؟
مزارات اولیاء پر ہونے والے خرافات
اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اﷲ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اپنے مولیٰﷺ کے مزار پر حاضر ہوکر آپﷺ سے فیض حاصل کیا کرتے تھے۔۔۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور انشاء اﷲ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کے لئے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائر اﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جاسکے۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کئے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے (معاذ اﷲ)
اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔
اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ اگر ہم لوگ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں۔
مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا
امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہوسکتی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا اﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاؤں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے
(فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ خبردار جالی شریف (حضورﷺ کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاؤ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریمﷺ کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔
(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزارات پر چادر چڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں اﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کو دیں (احکام شریعت حصہ اول ص 42)
عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے؟
آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ (ملفوظات شریف ص 383‘ مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی)
عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے
سوالبزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24ص 112‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے
سوالتقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ کیونکہ خیال بدونیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے؟
جواب: رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29ص 92‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وجد کا شرعی حکم
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں۔
اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کے لئے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریمﷺ فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)
(ملفوظات شریف ‘231‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی)
حرمت مزامیر
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہثت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے (فتاویٰ رضویہ جلد دہم ص 54)
نشہ و بھنگ و چرس
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کردیتی ہے۔ (احکام شریعت جلد دوم)
تصاویر کی حرمت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جاندار کی تصویریں بنانا ہاتھ سے ہو خواہ عکسی حرام ہے اور ان معبود ان کفار کی تصویریں بنانا اور سخت تر حرام و اشد کبیرہ ہے‘ ان سب لوگوں کو امام بنانا گناہ ہے اور ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی قریب الحرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 190)
غیر اﷲ کو سجدہ تعظیمی حرام اور سجدہ عبادت کفر ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عز جلالہ (رب تعالیٰ) کے سوا کسی کے لئے نہیں غیر اﷲ کو سجدہ عبادت تو یقیناًاجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت (تعظیمی) حرام و گناہ کبیرہ بالیقین۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ‘ ص 5 مطبوعہ بریلی ہندوستان)
چراغ جلانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبروں پر چراغ جلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو شیخ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ کی تصنیف حدیقہ ندیہ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے (اگرچہ قبر کے قریب تلاوت قرآن کے لئے موم بتی جلانے میں حرج نہیں مگر قبر سے ہٹ کر ہو)
(البریق المنار بشموع المزار ص 9 مطبوعہ لاہور)
اس کے بعد محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ سب اس صورت میں ہے کہ بالکل فائدے سے خالی ہو اور اگر شمع روشن کرنے میں فائدہ ہو کہ موقع قبور میں مسجد ہے یا قبور سر راہ ہیں‘ وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے تو یہ امر جائز ہے (البریق المنار بشموع المزار ص 9 مطبوعہ لاہور)
ایک اور جگہ اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں اصل یہ کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور جو کام دینی فائدے اور دنیوی نفع جائز دونوں سے خالی ہو عبث ہے اور عبث خود مکروہ ہے اور اس میں مال صرف کرنا اسراف ہے اور اسراف حرام ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ ولا تسرفوا ان اﷲ لا یحب المسرفین اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا بلاشبہ محبوب شارع ہے۔
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے تو پہنچائے (احکام شریعت حصہ اول ص 38 مطبوعہ آگرہ ہندوستان)
اگر اور لوبان جلانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبر پر لوبان وغیرہ جلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا گیا عود‘ لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہئے (بچنا چاہئے) اگرچہ کسی برتن میں ہو اور قبر کے قریب سلگانا (اگر نہ کسی تالی یا ذاکر یا زائر حاضر خواہ عنقریب آنے والے کے واسطے ہو) بلکہ یوں کہ صرف قبر کے لئے جلا کر چلا آئے تو ظاہر منع ہے اسراف (حرام) اور اضاعیت مال (مال کو ضائع کرنا ہے) میت صالح اس عرضے کے سبب جو اس قبر میں جنت سے کھولا جاتا ہے اور بہشتی نسیمیں (جنتی ہوائیں) بہشتی پھولوں کی خوشبوئیں لاتی ہیں۔ دنیا کے اگر اور لوبان سے غنی ہے (السنیۃ الانیقہ ص 70 مطبوعہ بریلی ہندوستان)
فرضی مزار بنانا اور اس پر چادر چڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں سوال کیاگیا:
مسئلہ: کسی ولی کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب و لحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کے واسطے بنانے اپنے فرضی مزار کے خواب میں اجازت دے تو وہ قول مقبول ہوگا یا نہیں؟
الجواب: فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی باتیں خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 425‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا (ملفوظات شریف ص 240‘ ملخصاً رضوی کتاب گھر دہلی)
مزارات اولیاء پر خرافات
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کرام کے مزارات پر ہر سال مسلمانوں کا جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور مجالس کرنا اور اس کا ثواب ارواح طیبہ کو پہنچانا جائز ہے کہ منکرات شرعیہ مثل رقص و مزامیر وغیرھا سے خالی ہو‘ عورتوں کو قبور پر ویسے جانا چاہئے نہ کہ مجمع میں بے حجانہ اور تماشے کا میلاد کرنا اور فوٹو وغیرہ کھنچوانا یہ سب گناہ و ناجائز ہیں جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اسے امام نہ بنایا جائے (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 216‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
مزارات پر حاضری کا طریقہ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویٰ رضویہ سے ملاحظہ ہو:
مسئلہ: حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں اور فاتحہ میں کون کون سی چیز پڑھا کریں؟
الجواب: مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی قدموں کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز باادب سلام عرض کرے السلام علیک یا سیدی و رحمتہ اﷲ و برکاتہ‘ پھر درود غوثیہ‘ تین بار‘ الحمد شریف ایک‘ آیتہ الکرسی ایک بار‘ سورہ اخلاص سات بار‘ پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورہ یٰس اور سورہ ملک بھی پڑھ کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرے کہ الٰہی! اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے‘ نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اسے میری طرف سے اس بندہ مقبول کی نذر پہنچا۔۔۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو‘ اس کے لئے دعا کرے اور صاحب مزار کی روح کو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے‘ پھر اسی طرح سلام کرکے واپس آئے۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے (ادب اسی میں ہے) اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام۔ واﷲ تعالی اعلم
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 522‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
مردے سنتے ہیں
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
حدیث شریف: غزوہ بدر شریف میں مسلمانوں نے کفار کی نعشیں جمع کرکے ایک کنویں میں پاٹ دیں حضورﷺ کی عادت کریمہ تھی جب کسی مقام کو فتح فرماتے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے‘ یہاں سے تشریف لے جاتے وقت اس کنویں پر تشریف لے گئے جس میں کافروں کی لاشیں پڑی تھیں اور انہیں نام بنام آواز دے کر فرمایا ’’ہم نے تو پالیا جو ہم سے ہمارے رب تعالیٰ نے سچا وعدہ (یعنی نصرت کا) فرمایا تھا کیوں تم نے بھی پایا جو سچا وعدہ (یعنی نار کا) تم سے تمہارے رب تعالیٰ نے کیا تھا؟ امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے عرض کی یارسول اﷲﷺ! بے جان سے کلام فرماتے ہیں؟ فرمایا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں‘ اسے تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے مگر انہیں طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں (صحیح بخاری ‘ کتاب المغازی‘ حدیث 3976جلد 3‘ ص 11)
تو جب کافر تک سنتے ہیں‘ (تو پھر) مومن تو مومن ہے اور پھر اولیاء کی شان تو ارفع اعلیٰ ہے (یعنی اولیاء اﷲ کتنا سنتے ہوں گے)
(پھر فرمایا) روح ایک پرند ہے اور جسم پنجرہ۔۔۔ پرند جس وقت تک پنجرے میں ہے اور اس کی پرواز اسی قدر ہے‘ جب پنجرے سے نکل جائے اس وقت اس کی قوت پرواز دیکھئے (ملفوظات شریف ص 270‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
ایک اہم فتویٰ
سوالکیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے یہ نیت کی کہ اگر میری نوکری ہوجائے تو پہلی تنخواہ زیارت پیران کلیر شریف کی نذر کروں گا‘ وہ شخص تیرہ تاریخ سے نوکر ہوا اور تنخواہ اس کی ایک مہینہ سترہ دن بعد ملی۔ اب یہ ایک ماہ کی تنخواہ صرف کرے یا سترہ دن کی؟ اور اس تنخواہ کا صرف کس طرح پر کرے یعنی زیارت شریف کی سفیدی و تعمیر وغیرہ میں لگائے یا حضرت صابر پیا صاحب علیہ الرحمہ کی روح پاک کو فاتحہ ثواب بخشے یا دونوں طرف صرف کرسکتا ہے؟
الجواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں صرف نیت سے تو کچھ لازم نہیں ہوتا جب تک زبان سے الفاظ نذر ایجاب کہے اور اگر زبان سے الفاظ مذکور کہے اور ان سے معنی صحیح مراد لئے یعنی پہلی تنخواہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر صدقہ کروں گا اور اس کا ثواب حضرت مخدوم صاحب علیہ الرحمہ کی نذر کروں گا یا پہلی تنخواہ اﷲ تعالیٰ کے لئے مخدوم صاحب علیہ الرحمہ کے آستانہ پاک کے فقیروں کو دوں گا‘ یہ نذر صحیح شرعی ہے اور استحساناً وجوب ہوگیا۔ پہلی تنخواہ اسے فقیروں پر صدقہ کرنی لازم ہوگئی مگر یہ اختیار ہے کہ آستانہ پاک کے فقیروں کو دے اور جہاں کے فقیروں محتاجوں کو چاہے اور اگر یہ معنی صحیح مراد نہ تھے بلکہ بعض بے عقل جاہلوں کی طرح بے ارادہ صدقہ وغیرہ قربات شرعیہ صرف یہی مقصود تھا کہ پہلی تنخواہ خود حضرت مخدوم صاحب کو دوں گا تو یہ نذر باطل محض و گناہ عظیم ہوگی۔
مگر مسلمان پر ایسے معنی مراد لینے کی بدگمانی جائز نہیں جب تک وہ اپنی نیت سے صراحتاً اطلاع نہ دے۔ اسی طرح اگر نذرزیارت کرنے سے اس کی یہ مراد تھی کہ اﷲ تعالیٰ کے واسطے عمارت زیارت شریف کی سفیدی کرادوں گا یا احاطہ مزار پرانوار میں روشنی کروں گا۔ جب بھی یہ نذر غیر لازم و نامعتبر ہے کہ ان افعال کی جنس سے کوئی واجب شرعی نہیں۔ رہا یہ کہ جس حالت میں نذر صحیح ہوجائے۔
پہلی تنخواہ سے کیا مراد ہوگی یہ ظاہر ہے کہ عرف میں مطلق تنخواہ خصوصا پہلی تنخواہ ایک مہینہ کی اجرت کو کہتے ہیں۔ اگرچہ اس کا ایک جز بھی تنخواہ ہے اور عمر بھر کا واجب بھی تنخواہ ہے تو پہلی تنخواہ کہنے سے اول تنخواہ ایک ماہ ہی عرفا لازم آئے گی۔
کیونکہ کسے عقد والے‘ قسم والے‘ نذر والے اور وقف کرنے والے کے کلام کو متعارف معنی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ اس پر نص کی گئی ہے (رد المحتار‘ باب التعلیق‘ داراحیاء التراث العربی بیروت جلد 2ص 533,499)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 13 ص591‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
وفات کے موقع پر بے ہودہ رسومات
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ باقی جو بے ہودہ باتیں لوگوں نے نکالی ہیں مثلا اس میں شادی کے سے تکلف کرنا‘ عمدہ عمدہ فرش بچھانا‘ یہ باتیں بے جا ہیں اور اگر یہ سمجھتا ہے کہ ثواب تیسرے دن پہنچتا ہے‘ یا اس دن زیادہ پہنچے گا اور روز کم‘ تو یہ عقیدہ بھی اس کا غلط ہے۔ اسی طرح چنوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ چنے بانٹنے کے سبب کوئی برائی پیدا ہو (الحجتہ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ‘ ص 14 مطبوعہ لاہور)
میت کے گھر مہمان داری
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کے گھر انتقال کے دن یا بعد عورتوں اور مردوں کا جمع ہوکر کھانا پینا اور میت کے گھر والوں کو زیر بار کرنا سخت منع ہے (جلی الصوت لنہی الدعوت امام الموت‘ مطبوعہ بریلی شریف ہندوستان)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا
سوالکیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی ہے تو اس صورت میں ہندہ کو کب تک دوسرے کے یہاں کی میت کا کھانا نہیں چاہئے اور اگر ہندہ کے گھر میں کوئی مرجائے تو اس کا بھی کھانا جائز ہے اور کب تک یعنی برس تک یا چالیس دن تک۔ اور اگر ہندہ نے شروع سے جمعرات کی فاتحہ نہ دلائی ہو تو چالیس دن کے بعد سات جمعرات کی فاتحہ دلانا چاہے‘ ہوسکتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے‘ اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت ہے‘ اور بغیر دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں‘ چھ ماہی ‘ برسی میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے‘ وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے مگر اس کا کھانا منع ہے۔ بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائے اور فقیر کو تو کچھ مضائقہ نہیں کہ وہی اس کے مستحق ہیں اور ان سب احکام میں وہ جس نے اپنی موت اپنی حیات میں کردی اور جس نے نہ کی سب کے سب برابر ہیں اور اپنی یہاں موت ہوجائے تو اپنا کھانا کھانے کی کسی کو ممانعت نہیں اور چالیس دن کے بعد بھی جمعراتیں ہوسکتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے فقیروں کو جب اور جو کچھ دے ثواب ہے (واﷲ تعالیٰ اعلم)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 673‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
ایصال ثواب سنت ہے اور موت میں ضیافت ممنوع
فتح القدیر وغیرہ میں ہے اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بدعت شنیعہ ہے۔ امام احمد اور ابن ماجہ بسند صحیح حضرت جرید بن عبداﷲ بجلی رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں ہم گروہ صحابہ اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے (فتح القدیر‘ فصل فی الدفن مکتبہ نوریہ رضویہ‘ سکھر 103/2)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 604‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
سوئم کے چنے کون تناول کرسکتا ہے؟
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے سوئم کے چنوں اور طعام میت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ چیزیں غنی نہ لے‘ فقیر لے اور وہ جو‘ان کامنتظر رہتا ہے‘ ان کے نہ ملنے سے نا خوش ہوتا ہے اس کا قلب سیاہ ہوتا ہے‘ مشرک یا چمار کو اس کا دینا گناہ گناہ گناہ ہے جبکہ فقیر لے کر خود کھائے اور غنی لے ہی نہیں اور لے لئے ہوں تو مسلمان فقیر کو دے دے۔ یہ حکم عام فاتحہ کا ہے نیاز اولیاء کرام طعام موت نہیں وہ تبرک ہے فقیر وغنی سب لیں جبکہ مانی ہوئی نذر بطور نذر شرعی نہ ہو۔ شرعی نذر پھر غیر فقیر کو جائز نہیں (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم)
ایک اور جگہ یوں فرمایا میت کے یہاں جو لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کی دعوت کی جاتی ہے اس کھانے کی تو ہر طرح ممانعت ہے اور بغیر دعوت کے جمعراتوں‘ چالیسویں ‘ چھ ماہی‘ برسی میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے مگر اس کا کھانا منع نہیں بہتر ہے کہ غنی نہ کھائے (فتاویٰ رضویہ)
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی وصیت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے یہ وصیت فرمائی کہ ہماری فاتحہ کا کھانا صرف فقراء کو کھلایا جائے (وصایا شریف)
میت پرپھولوں کی چادر ڈالنا کیسا؟
سوالہمارے یہاں میت ہوگئی تھی تو اس کے کفنانے کے بعد پھولوں کی چادر ڈالی گئی اس کو ایک پیش امام افغانی نے اتار ڈالا اور کہا یہ بدعت ہے‘ ہم نہ ڈالنے دیں گے؟
الجواب: پھولوں کی چادر بالائے کفن ڈالنے میں شرعاً اصلاً حرج نہیں بلکہ نیت حسن سے حسن ہے جیسے قبورپر پھول ڈالنا کہ وہ جب تک تر رہیں گے تسبیح کرتے ہیں اس سے میت کا دل بہلتا ہے اور رحمت اترتی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے قبروں پر گلاب اور پھولوں کا رکھنا اچھا ہے (فتاویٰ ہندیہ‘ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور‘ جلد 5ص 351‘ مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور)
فتاویٰ امام قاضی خان و امداد الفتاح شرح المصنف لمراقی الفلاح و رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: پھول جب تک تر رہے تسبیح کرتا رہتا ہے جس سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے (رد المحتار‘ مطلب فی وضع الجدید و نحو الآس علی القبور‘ جلد اول ص 606 مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9 ص 105‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ لاہور)
جنازہ پر چادر ڈالنا کیسا؟
سوالجنازہ کے اوپر جو چادر نئی ڈالی جاتی ہے اگر پرانی ڈالی جائے تو جائز ہے یا نہیں؟ اگر کل برادری کے مردوں کے اوپر ایک ہی چادر بنا کر ڈالتے رہا کریں تو جائز ہے یا نہیں؟ اس کی قیمت مردہ کے گھر سے یعنی قلیل قیمت لے کر مقبرہ قبرستان یا مدرسہ میں لگانی جائز ہے یا نہیں؟ اور چادر مذکور اونی یا سوتی بیش قیمت جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ چادر نئی ہو یاپرانی‘یکساں ہے ہاں مسکین پر تصدق (صدقے) کی نیت ہو تو نئی اولیٰ‘ اور اگر ایک ہی چادر معین رکھیں کہ ہر جنازے پر وہی ڈالی جائے پھر رکھ چھوڑی جائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اس کے لئے کپڑا وقف کرسکتے ہیں۔ در مختار میں ہے۔
ہنڈیا‘ جنازہ اور اس کے کپڑے کا وقف صحیح ہے (درمختار‘ کتاب الوقف‘ جلد اول ص 380‘ مطبوعہ دہلی)
طحطاوی و ردالمحتار میں ہے: جنازہ کسرہ کے ساتھ چارپائی اور اس کے کپڑے جن سے میت کو ڈھانپا جائے (ردالمحتار کتاب الوقف‘ جلد 3 ص 375 مطبوعہ بیروت)
اور بیش قیمت بنظر زینت مکروہ ہے کہ میت محل تزئین نہیں اور خالص بہ نیت تصدق (صدقہ) میں حرج نہیں جیسا کہ ہدی (قربانی) کے جانور کے جھل (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 16ص 123‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
گیارہویں شریف کا انعقاد
سوالگیارہویں شریف کے لئے آپ کیا فرماتے ہیں۔ گیارہویں شریف کے روز فاتحہ دلانے سے ثواب زیادہ ہوتا ہے یا آڑے دن فاتحہ دلانے سے‘ بزرگوں کے دن کی یادگاری کیلئے دن مقرر کرنا کیسا ہے؟
جواب: محبوبان خدا کی یادگاری کے لئے دن مقرر کرنا بے شک جائز ہے۔ حدیث شریف میں ہے حضور کریمﷺ ہر سال کے اختتام پر شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لاتے تھے (جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ 24/13‘ داراحیاء التراث العربی بیروت 170/13)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایسی حدیث کو اعراس اولیائے کرام کے لئے مستند مانا اور شاہ ولی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ نے کہا: مشائخ کے عرس منانا اس حدیث سے ثابت ہے (ہمعات ‘ ہمعہ 11 مطبوعہ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی‘ حیدرآباد سندھ ص58)
وقت دفن اذان کہنا کیسا؟
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ وقت دفن اذان کیوں کہی جاتی ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان کو دور کرنے کے لئے کیونکہ حدیث شریف میں ہے اذان جب ہوتی ہے تو شیطان36 میل دور بھاگ جاتا ہے۔ الفاظ حدیث میں یہ ہیں کہ ’’روحا‘‘ تک بھاگتا ہے اور روحا مدینہ منورہ سے 36 میل دور ہے (صحیح مسلم شریف‘ کتاب الصلوٰۃ حدیث 388-389‘ ص 204)
(ملفوظات شریف ص 526‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
سوال: قبر پر اذان کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں قبر پر اذان کہنے میں میت کا دل بہلتا اور اس پر رحمت الٰہی کا اترنا اور سوال جواب کے وقت شیطان کا دور ہونا‘ اور ان کے سوا اور بہت فائدے ہیں جن کی تفصیل ہمارے رسالے ’’ایذان لاجرفی اذان القبر‘‘ میں ہے)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23‘ ص 374‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ایصال ثواب
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ فاتحہ‘ ایصال ثواب کا نام ہے اور مومن عمل نیک کا ایک ثواب اس کی نیت کرتے ہی حاصل اور کئے پر دس ہوجاتا ہے (الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص 14‘ مطبوعہ لاہور)
رہا کھانا دینے کا ثواب وہ اگرچہ اس وقت موجود نہیں تو کیا ثواب پہنچانا شاید ڈاک یا پارسل میں کسی چیز کا بھیجنا سمجھا ہوگا کہ جب تک وہ شے موجود نہ ہو‘ کیا بھیجی جائے؟
حالانکہ اس کا طریقہ صرف جناب باری میں دعا کرنا ہے کہ وہ ثواب میت کو پہنچائے۔ اگر کسی کا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک کھانا سامنے نہ کیا جائے گا ثواب نہ پہنچے گا تو یہ گمان اس کا محض غلط ہے (الحجۃ الفاتحہ لطیب التعین والفاتحہ ص 14‘ مطبوعہ لاہور)
ایک سوال کے جواب میں کہ زید اپنی زندگی میں خود اپنے لئے ایصال ثواب کرسکتا ہے یا نہیں؟
ارشاد فرماتے ہیں ہاں کرسکتا ہے‘ محتاجوں کو چھپا کر دے یہ جو عام رواج ہے کہ کھانا پکایا جاتا ہے اور تمام اغنیاء و برادری کی دعوت ہوتی ہے‘ ایسا نہ کرنا چاہئے (ملفوظات شریف ص 48‘ حصہ سوم ‘ مطبوعہ مسلم یونیورسٹی پریس علی گڑھ ہندوستان)
قرآن خوانی کی اجرت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے قرآن خوانی کے لئے اجرت لینے اور دینے کو ناجائز قرار دیا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم میں 318 مطبوعہ مبارکپور ہندوستان)
شب برأت اور شادی میں آتش بازی
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حرام اور پورا حرام ہے۔ اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول و رائج ہیں بلاشبہ ممنوع و ناجائز ہیں۔ جس شادی میں اس طرح کی حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس میں ہرگز شریک نہ ہوں۔ اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوم ہو‘ سب مسلمان مرد‘ عورتوں پر لازم ہے فورا اسی وقت (محفل سے) اٹھ جائیں (ہادی الناس ص 3)
نسب پر فخر کرنا جائز نہیں ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:
1۔ نسب پر فخرکرنا جائز نہیں ہے
2۔ نسب کے سبب اپنے آپ کو بڑا جاننا تکبر کرنا جائز نہیں
3۔ دوسروں کے نسب پر طعن جائز نہیں
4۔ انہیں کم نسبی کے سبب حقیر جاننا جائز نہیں
5۔ نسب کو کسی کے حق عار یا گالی سمجھنا جائز نہیں
6۔ اس کے سبب کسی مسلمان کادل دکھانا جائز نہیں
7۔ احادیث جو اس بارے میں آئیں‘ انہیں معافی کی طرف ناظر ہیں کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت شرعی ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو‘ اسے ایذا پہنچے‘ شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بات فی نفسہ سچی ہو (ارادۃ الادب لفاضل النسب ص 3)
پیرومرشد اور مریدہ کے درمیان پردہ
بعض خانقاہوں میں پیر صاحب اپنے مرید اور مریدنیوں کو بے پردہ اپنے سامنے بٹھاتے ہیں۔ بے تکلفی کے ساتھ گفتگو‘ ہنسی مذاق کرتے ہیں اور بعض تو معاذ اﷲ اپنی مریدنیوں سے ہاتھ بھی ملاتے ہیں اور مریدنیوں کی پیٹھ پر ہاتھ بھی مارتے ہیں مگر اس ناجائز فعل کے متعلق سنیوں کے امام‘ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک ہر غیر محرم سے پردہ فرض ہے جس کا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے بے شک پیر مریدہ کا محرم نہیں ہوجاتا۔ حضورﷺ سے بڑھ کر اُمتّ کا پیر کون ہوگا؟ وہ یقیناًابو الروح ہوتا ہے اگر پیر ہونے سے آدمی محرم ہوجایا کرتا تو چاہئے تھا کہ نبی سے اس کی اُمتّ سے کسی عورت کا نکاح نہ ہوسکتا (مسائل سماع‘ مطبوعہ لاہور ص 32)
جعلی عاملوں کا فال کھولنا
جگہ جگہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر جعلی عاملوں کا ایک گروہ سرگرم عمل ہے‘ جوالٹے سیدھے فال نامے نکال کر عوام کے عقائد کو متزلزل کرتے ہیں‘ سادہ لوح مسلمانوں کی جیبیں خالی کروائی جاتی ہیں پھر یہ سب اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے مگر اہلسنت کے امام اپنی کتاب میں مسلمانوں کی اصلاح اس طرح فرماتے ہیں۔
سوال: فال کیا ہے؟ جائز ہے یا نہیں؟سعدی و حافظ وغیرہ کے فالنامے صحیح ہیں یا نہیں؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں فال ایک قسم کا استخارہ ہے‘ استخارہ کی اصل کتب احادیث میں بکثرت موجود ہے‘ مگر یہ فالنامے جو عوام میں مشہور اور اکابر کی طرف منسوب ہیں بے اصل و باطل ہیں اور قرآن عظیم سے فال کھولنا منع ہے اور دیوان حافظ وغیرہ سے بطور تفاؤل جائز ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23ص 327‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اﷲ تعالیٰ کا علمِ غیب ذاتی اور حضورﷺ کا علمِ غیب عطائی ہے
پہلا فتویٰ
کیا اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوبﷺ کا علم برابر ہے؟ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ہم اہلسنت کا مسئلہ علم غیب میں یہ عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضورﷺ کو علم غیب عنایت فرمایا خود رب جل جلالہ فرماتا ہے:
القرآنوَمَاْ ہُوَ عَلَیْ اْلغَیْبِ بِضَنِیْنَ
ترجمہ: یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں (سورہ تکویر آیت 24 پارہ 30)
تفسیر معالم التنزیل اور تفسیر خازن میں ہے یعنی حضورﷺ کو علم غیب آتا ہے وہ تمہیں بھی تعلیم فرماتے ہیں (تفسیر خازن‘ سورہ تکویر تحت الایۃ 24‘ جلد 4ص 357)
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کا علم برابر تو درکنار‘ میں نے اپنی کتابوں میں تصریح کردی ہے کہ اگر تمام اولین و آخرین کا علم جمع کیا جائے تو اس علم کو علم الٰہی جل جلالہ سے وہ نسبت ہرگز نہیں ہوسکتی جو ایک قطرے کے کروڑہویں حصے کو کروڑ سمندر سے ہے کہ یہ نسبت متناہی کی متناہی (یعنی محدود) کے ساتھ ہے اور وہ غیر متناہی (یعنی لامحدود) متناہی کو غیر متناہی سے کیا نسبت ہے۔
(ملفوظات شریف‘ ص 93‘ تخریج شدہ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ‘ کراچی)
دوسرا فتویٰ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علم غیب ذاتی کہ اپنی ذات سے ہیبے کسی کے دیئے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ ان آیتوں میں یہی معنی مراد ہیں کہ بے خدا کے دیئے کوئی نہیں جان سکتا اور اﷲ تعالیٰ کے بتائے سے انبیاء کرام کو معلوم ہونا ضروریات دین سے ہے۔ قرآن مجید کی بہت آیتیں اس کے ثبوت میں ہیں (فتاویٰ رضویہ)
تیسرا فتویٰ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ غیب کا علم اﷲ تعالیٰ کو ہے‘ پھر اس کی عطا سے اس کے حبیبﷺ کو ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 27 میں 233‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
جاہل پیر کا مرید ہونا
موجودہ دور میں ہر جانب جاہل پیروں اور جعلی صوفیوں کا ڈیرہ ہے‘ نادان لوگ ان کے پاس جاتے ہیں اور اپنا مال ان پر لٹاتے ہیں پھر جب ہوش آتا ہے تو چیخ اٹھتے ہیں کہ پیر صاحب نے ہمیں لوٹ لیا۔ ہمارا مال کھالیا۔ ہماری عزت پامال کردی۔ اسی لئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ نے جاہل فقیر و پیر سے بیعت کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ ہمیشہ سنی صحیح العقیدہ عالم اور پابند شریعت پیر سے بیعت کی جائے چنانچہ :امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جاہل فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے (ملفوظات شریف ص 297‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

بیعت کے چار شرائط ہیں
بیعت اس شخص سے کرنا چاہئے جس میں چار باتیں ہوں ورنہ بیعت جائز نہ ہوگی۔
1۔ سنی صحیح العقیدہ ہو
2۔ کم از کم اتنا علم ضروری ہے کہ بلا کسی کی امداد کے اپنی ضرورت کے مسائل کتاب سے خود نکال سکے
3۔ اس کا سلسلہ حضورﷺ تک متصل (یعنی ملا ہوا) ہو‘ منقطع (یعنی ٹوٹا ہوا) نہ ہو
4۔ فاسق معلن نہ ہو
تانبے اور پیتل کے تعویذ
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ تانبے‘ پیتل کے تعویذوں کا کیا حکم ہے؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ تانبے اور پیتل کے تعویذ مرد و عورت دونوں کو مکروہ اور سونے چاندی تعویذ کے مرد کو حرام‘ عورت کو جائز ہیں (ملفوظات شریف ص 328‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
امام ضامن کا پیسہ
آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ جب بھی کوئی شخص سفر میں جاتاہے یا کسی کی جان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے‘ تو عورتیں اس کے بازو پر ایک سکہ کپڑے میں لپیٹ کر باندھ دیتی ہیں اور اس کا نام ’’امام ضامن‘‘ رکھا گیا ہے جوکہ بالکل خود ساختہ کام ہے نہ اس کی کوئی اصل ہے نہ کہیں اس کا حکم دیا گیاہے۔ بعض بدلگام لوگ اس کو بھی اہلسنت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بریلویوں کے امام کا کام ہے حالانکہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کا اس کام سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ کیا امام ضامن کا جو پیسہ باندھا جاتا ہے‘ اس کی کوئی اصل ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ کچھ نہیں (ملفوظات شریف ص 328‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
غیر اﷲ سے استغاثہ اور مدد کے متعلق عقیدہ
غیر اﷲ سے استغاثہ اور مدد کے متعلق مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضورﷺ اور اولیاء کرام رحمہم اﷲ کو معبود مان کر ان سے مدد مانگتے ہیں جوکہ کھلا بہتان ہے۔ مسلمانان اہلسنت بزرگان دین کو اﷲ تعالیٰ کی صفات کا مظہر جان کر ان سے مدد مانگتے ہیں۔ اس معاملے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کو خوب بدنام کیا جاتا ہے اور معاذ اﷲ مشرک اور بدعتی تک کہا اور مشہور کیا جاتا ہے۔ اے کاش! ایسے لوگ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تو ایسی بدگمانی نہ پھیلاتے۔ اب اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں۔
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں:
حضورﷺ اور اولیاء کرام سے استغاثہ اور استعانت مشروط طور پر جائز ہے جبکہ انہیں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور اس کی بارگاہ میں وسیلہ جانے اور انہیں ’’باذن الٰہی والمدبرات امراء‘‘ سے مانے اور اعتماد کرلے کہ بے حکم خدا تعالیٰ ذرہ نہیں ہل سکتا اور اﷲ تعالیٰ کے دیئے بغیر کوئی ایک حصہ نہیں دے سکتا۔ ایک حرف نہیں سن سکتا۔ پلک نہیں ہلا سکتا اور بے شک سب مسلمانوں کا یہی اعتقاد ہے (احکام شریعت حصہ اول ص 4‘ مطبوعہ آگرہ ہندوستان)
فرائض کو چھوڑ کر نفل بجالانا
وقت کے امام پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اس اُمتّ کو مستحبات اور نوافل میں لگادیا۔ فرائض کی اہمیت کو فراموش کیا گیا حالانکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کے فتاوے اور ان کی کتابوں کا اگر کوئی تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کرے تو وہ بے ساختہ بول اٹھے گا کہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ اسلامی عقائد کے ترجمان تھے چنانچہ:
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ابو محمد عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ نے اپنی کتاب مستطاب فتوح الغیب میں کیا کیاجگر شگاف مثالیں ایسے شخص کے لئے ارشاد فرمائی ہیں جو فرض چھوڑ کر نفل بجالائے۔ اس کتاب میں فرمایا کہ اگر فرائض کی ادائیگی سے قبل سنن و نوافل میں مشغول ہو تو سنن و نوافل قبول نہیں ہوتیں بلکہ موجب اہانت ہوتی ہیں (اعزا لا کتناہ فی صدقۃ مانع الزکوٰۃ مطبوعہ بریلی ص 11-10)
طریقت کی اصل تعریف
جاہل لوگوں نے مسلک اہلسنت کو بدنام کرنے کے لئے جہالت کا نام طریقت رکھ دیا‘ چرس‘ بھنگ‘ ناچ گانے‘ سٹے کے نمبر بتانے والوں اور جعلی عاملوں کا نام طریقت رکھ دیا اور معاذ اﷲ یہ بہتان اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ پر لگایا جاتا ہے کہ یہ انہوں نے سکھایا ہے۔ امام اہلسنت کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت سامنے آجاتی ہے چنانچہ:
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ طریقت نام ہے ’’وصول الی اﷲ کا‘‘ محض جنون و جہالت ہے دو حرف پڑھا ہوا جانتا ہے طریق طریقہ طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو۔ تو یقیناًطریقت بھی راہ ہی کا نام ہے۔ اب اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو بشارت قرآن عظیم خدا تعالیٰ تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان تک لے جائے گی‘ جنت میں نہ لے جائے گی بلکہ جہنم میں کہ شریعت کے سوا سب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا (مقال العفاء باعزاز شرع و علماء مطبوعہ کراچی ص7)
جشن ولادت کا چراغاں
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ میلاد شریف میں جھاڑ (یعنی پنج شاخہ مشعل) فانوس‘ فروش وغیرہ سے زیب و زینت اسراف ہے یا نہیں؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ علماء فرماتے ہیں یعنی اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں (ملخصا‘ تفسیر کشاف‘ سوؤ فرقان تحت الایۃ 67 جلد سوم ص 293)
جس شے سے تعظیم ذکر شریف مقصود ہو ہرگز ممنوع نہیں ہوسکتی
(ملفوظات شریف ص 174 مطبوعہ مجلس المدینۃ العلمیہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی)
امام غزالی علیہ الرحمہ نے احیاء العلوم میں حضرت سید ابو علی رودباری علیہ الرحمہ سے نقل کیا کہ ایک بندہ صالح نے مجلس ذکر شریف ترتیب دی ہے اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں۔ ایک شخص ظاہر بین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے لگے۔ بانی مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر فرمایا کہ جو شمع میں نے غیر خدا کے لئے روشن کی وہ بجھا دیجئے۔ کوشش کی جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی (احیاء علوم الدین‘ الجز الثانی‘ کتاب آداب الاکل ص 26)
جناب رسالت مآبﷺ کو ادب کے ساتھ پکارنا
ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ جناب رسالت مآبﷺ کو آپ کے ذاتی نام محمدﷺ سے نہ پکارا جائے اور نہ ہی نعت شریف میں پڑھا جائے بلکہ یا رسول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ‘ یا نبی اﷲ اور یا رحمتہ للعالمینﷺ کہہ کر ندا دی جائے۔
جہاں کہیں مساجد میں‘ محرابوں میں‘ پوسٹروں اور بینروں میں بھی ’’یامحمدﷺ‘ کی جگہ یارسول اﷲ‘ یا حبیب اﷲ یا نبی اﷲ اور یارحمتہ للعالمینﷺ ہی تحریر کیا جائے تاکہ حضورﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رہے۔
چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
قرآن مجید کی آیت ہے کہ رسول کا پکارنا اپنے میں ایسا نہ ٹہرالو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو‘ اب ایک دوسرے میں باپ اور مولا اور بادشاہ سب آگئے۔ اسی لئے علماء فرماتے ہیں نام پاک لے کر ندا کرنا حرام ہے۔ اگر روایت میں مثلا یا محمدﷺ آیا ہو تو اس کی جگہ بھی یارسول اﷲﷺ کہے۔ اس مسئلہ کا بیان امام اہلسنت علیہ الرحمہ کا رسالہ ’’تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین‘‘ میں دیکھئے
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 15 ص 171 ‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)
مرد کا بال بڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ اکثر بال بڑھانے والے لوگ حضرت گیسو دراز کو دلیل لاتے ہیں۔
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ جہالت ہے۔ حضورﷺ نے بکثرت احادیث صحیحہ میں ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں سے مشابہت پیدا کریں اور عورتوں پر جو مردوں سے (صحیح بخاری‘ کتاب اللباس حدیث 5885 ص 4)
اور تشبہ کے لئے ہر بات میں پوری وضع بنانا ضروری نہیں (صرف) ایک ہی بات میں مشابہت کافی ہے (ملفوظات شریف ص 297‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
مرد کو چوٹی رکھنا حرام ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ مرد کو چوٹی رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض فقیر رکھتے ہیں۔
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ حرام ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں (مسند احمد بن حنبل‘ حدیث 3151‘ جلد اول ص 727)
(ملفوظات شریف ص 281‘ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ‘کراچی)
اﷲ تعالیٰ کو عاشق اور حضورﷺ کو معشوق کہنا ناجائز ہے؟
سوال: اﷲ تعالیٰ کو عاشق اور حضورﷺ کو اس کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ناجائز ہے کہ معنی عشق اﷲ تعالیٰ کے حق میں محال قطعی ہیں اور ایسا لفظ بے ورود ثبوت شرعی اﷲ تعالیٰ کی شان میں بولنا ممنوع قطعی (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21 ص 114 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و گناہ ہے
سوال: کیا حکم شرع شریف کا اس بارے میں کہ مدینہ شریف کو ’’یثرب‘‘ کہنا جائز ہے یا نہیں؟ جو شخص یہ لفظ کہے اس کی نسبت کیا حکم ہے؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہ گار
حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے‘ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے (اسے امام احمد نے بسند صحیح براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا)
(مسند امام احمد بن حنبل‘ المکتب الاسلامی بیروت 285/4)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21 ص 116‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مدینہ منورہ ‘ مکتہ المکرمہ سے بھی افضل ہے
سوال: حضورﷺ کا مزار اقدس بلکہ مدینہ طیبہ عرش وکرسی و کعبہ شریف سے افضل ہے یا نہیں؟
الجواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں تربت اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور سے متصل ہے کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے (مسلک متقسط مع ارشاد الساری‘ باب زیارۃ سید المرسلینﷺ‘ ص 336‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت)
باقی مزار شریف کا بالائی حصہ اس میں داخل نہیں کہ کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مدینہ طیبہ سوائے موضع تربت اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبہ مکرمہ ان دونوں میں کون افضل ہے‘ اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلک اول اور یہی مذہب فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ہے۔
طبرانی شریف کی حدیث شریف میں تصریح ہے کہ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے افضل ہے (المعجم الکبیر للطبرانی‘ حدیث 4450‘ جلد 4ص 288‘ مطبوعہ المکتبہ الفیصلیہ بیروت)
(فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 711‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب)
حرام مال پر نیاز دینا نرا وبال ہے
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو شخص حرام مال پر نیاز دیتا ہے اور کہتا ہے کہ حضورﷺ قبول فرمالیتے ہیں اس شخص کا یہ قول غلط صریح و باطل قبیح اور حضورﷺ پر افترائے فضیح ہے۔
زنہار مال حرام قابل قبول نہیں‘ نہ اسے راہ خدا میں صرف کرنا روا‘ نہ اس پر ثواب ہے بلکہ نرا وبال ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 21 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور ص 105)
جاہلانہ رسم
سوال: یہ جو بعض جہلاء غرض ڈورے کیا کرتے ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ خاتون جنت ہر کسی گھر ماہ ساون بھادوں میں جایا کرتی اور ایک ایک ڈورا ان کے کان میں باندھ کر یہ کہا کرتیں کہ پوریاں پکا کر فاتحہ دلا کر لانا ‘ اس کی کچھ سند ہے یا واہیات ہے؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ ڈوروں کی رسم محض بے اصل و مردود ہے اور حضرت خاتون جنت کی طرف اس کی نسبت محض جھوٹ برا افتراء ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23ص 272 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ماہ صفر المظفر منحوس نہیں
عوام میں بیماری پھیلی ہوئی ہے کہ ماہ صفر المظفر منحوس ہے اس میں بلائیں اترتی ہیں‘ اس ماہ میں کوئی خوشی کی تقریب منعقد نہ کی جائے خصوصا شروع ماہ کی تیرہ تاریخوں میں اور آخری تاریخوں میں۔۔۔
سوال: اکثر لوگ 3‘ 13 یا 23‘ 8‘ 18‘ 28 وغیرہ تواریخ اور پنج شنبہ و یکشنبہ و چہارشنبہ وغیرہ ایام کو شادی وغیرہ نہیں کرتے۔ اعتقاد یہ ہے کہ سخت نقصان پہنچے گا ان کا کیا حکم ہے؟
جواب: امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ سب باطل و بے اصل ہے (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 23ص 272‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
آخری بدھ کی شرعی حیثیت
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ماہ صفر المظفر کی آخری بدھ کی کوئی اصل نہیں۔ نہ اس دن حضورﷺ کی صحت یابی کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وصال شریف ہوا‘ اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے اور ایک حدیث مرفوع میں آیا ہے ابتلائے ایوب علیہ السلام اسی دن تھی (فتاویٰ رضویہ جلد 10ص 117)
یزید کیلئے مغفرت والی نماز کی روایت بے اصل ہے
سوالبعد سلام مسنون معروض خدمت ہوں کہ نماز غفیرا کی بابت میں ذکر الشہادتیں دیکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے یزید کو واسطے مغفرت کی بتائی تھی مجھے اس نماز کی تلاش ہے‘ میں پڑھنا چاہتی ہوں براہ مہربانی اس مسئلہ پر التفات مبذول فرما کر ترتیب نماز سے اطلاع دیجئے؟
جواب: وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ و برکاتہ۔ یہ روایت محض بے اصل ہے۔ حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ سے کوئی نماز یزید پلید کی مغفرت کے لئے اس کو تعلیم نہ فرمائی۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 28‘ص 52‘ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور

No comments:

Post a Comment

MADARSA HUZOOR SIBRAIN RAZA WHATS APP GROUP SAWAL O JAWAB

                                                         ⬅ سوال=01➖                فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور نفل و وتر کی کسی بھی سو...